Brief Introduction of Church of England (Anglican) with few pics چرچ آف انگلینڈ (انگلیکن)کا با تصویر مْختصر تعارف

 

چرچ آف  انگلینڈ  (انگلیکن)کا با تصویر  مْختصر تعارف


ملکہ برطانیہ الزبتھ اوّل نےاینگلیکن (چرچ آف انگلینڈ )کی بنیاد 1558   ء میں  رکھی اور بر صغیر پاک و ہند میں اشاعت شروع کرنے  کے واضح احکامت بھی جاری کئے۔(   حوالہ:  پادری ایس کے داس، جو بعد میں بشپ آف حیدر آباد بھی رہے ۔ تاریخِ  کلیسیائے پاکستان، صفحہ 86 )۔   انگلستان میں با اثرانگریز  تاجروں  کی ایک جماعت سےچنانچہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی 1600ء میں قائم ہوئی اور ملکہ برطانیہ الزبتھ اوّل نے اسے تسلیم کیا۔  اس  کمپنی کو دو  چیزوں کی خاص  ہدائت  کی گئی۔

-1-  ہند میں انکی تجارت تاجِ برطانیہ کی سر پرستی میں ہو گی۔

-2-   ہند میں تجارت کے ساتھ ساتھ انکو اینگلیکن مشنریوں کی سر پرستی بھی کرنا ہو گی۔

    یہ کمپنی 1607ء میں اینگلیکن مشنریوں کے ساتھ ہندوستان پہنچی۔ انگلینڈ کے بادشاہ جیمز اوّل نے اپنے سفارت کار سر تھامس 

کو ایک ڈاکٹر   بوٹن اور ریورنڈ جان ہوول کے ساتھ 1607 میں مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں بھیجا تھا۔


انگلینڈ کے بادشاہ جیمز اوّل  اورملکہ برطانیہ الزبتھ اوّل کی تصاویر
شہنشاہ ہند نے شاہ انگلستان کے اس قدم کی عزت کرتے ہوئے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی  کو ہند میں نہ صرف  تجارت  کرنے کی اجازت دی بلکہ بہت سی تجارتی مراعات سے بھی نوازا۔پٹنہ  شہر میں چمڑے کا کارخانہ بھی لگانے  کی اجازت بخشی۔     انگلستان کے سفیر سر  تھامس  کے  معالج ڈاکٹر بوٹن نے شہنشاہ جہانگیر کی بیٹی نیک اختر کا علاج کیا تو بادشاہ نے اس علاج کے بدلے ڈاکٹر  موصوف کو بنگال میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت بھی دےدی۔  جہاں بادشاہ کا دوسرا بیٹا  نائب السطنت تھا۔     اسی ڈاکٹر نے بادشاہ کے بیٹے کی حرم سرا کا علاج بھی کیا جو کہ بیمار تھی۔ اِس علاج کے بدلے کمپنی کو  ہگلی اور بلاس  پور میں  مزید کارخانے لگانے   کی اجازت مل گئی۔   لیکن کمپنی   میسولی پٹم اور ارمیسکوم میں بھی کارخانے لگانے کی  اضافی اجازت لے لی۔      یہ الگ بات ہے کہ یہا ں کے کارخانے بہتر ثابت نہ ہوئے اور کمپنی کو ان جگہوں پر کارخانے بند کرنے پڑے۔

 جہانگیر شہنشاہ ہند کی تصویر
جب ان بند کارخانوں کی خبر راجہ چندر نگری کو ملی تو اس نے کمپنی کو اپنے علاقوں میں آنے کی دعوت دےدی۔  جسے کمپنی نے 

بغیر وقت ضائع کیے قبول کیا اور مدراس کے پٹم میں ایک کارخانہ لگالیا ۔  جہاں کمپنی کو یہ کارخانہ قلعہ بند  کرنے کی بھی اجازت مل گئی۔    کمپنی نے اس قلعے کو سینٹ جارج کا نام دیا اور اپنے قدم  مضبوطی سے جما لئے۔  اس قلعہ کی وجہ  ہی سے ایک   خوبصورت شہر  مدراس قا ئم ہوا۔  
سفارت کار سر تھامس  کی تصویر

 1612 ء میں انگریزوں کی پْرتگیزوں کے ساتھ سورت کے مقام پر لڑائی ہوئی جس کی وجہ  ہند میں اپنی اپنی تجارتی اجارہ داری قائم کرنا تھی۔      انگریزوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور سورت کے چمڑے  کے کارخانے  اور  چمڑے کی منڈی  دونوں پر انگریز قابض ہو گئے۔   

بمبئی شہر بھی سورت کی مانند پْرتگیزوں نے بسایا تھا۔    یہ شہر بھی انگریزوں کو مل گیا۔    دراصل شاہ پْرتگال کی بیٹی کیتھرین  کی شادی  انگلستان کے چارلس دوئم  سے ہوئی  اور بمبئی  شہر جہیز میں ملا۔     اب کمپنی بمبئی میں مْنتقل ہوئی۔  یوں  کمپنی بڑی  ہی  تیزی سے پھیلتی گئی اور  کمپنی کا یہی پھیلاؤ  انگلیکن کی اشاعت کا باعث  بھی ٹھہرا۔     

اکبرِ اعظم  (دورِ  بادشاہت :  15 فروری 1556ء سے 27 اکتوبر 1605ء) کی طرح شاہ جہان (دورِبادشاہت : 19 جنوری 1628 سے 31جولائی 1658ء) کے دربار میں بھی یورپین مسیحی  آتے  رہتے تھے  اور شاہ جہان کا ایک بھتیجا بھی مسیحی ہو چْکا تھا۔  "اس کے علاوہ بادشاہ کو بھی اکثر گلے میں صلیب پہنے دیکھا گیا تھا"۔  (   حوالہ:  پادری ایس کے داس، جو بعد میں بشپ آف حیدر آباد بھی رہے ۔ تاریخِ  کلیسیائے پاکستان، صفحہ 66 )۔  نئے عہدنامہ کے فارسی ترجمے  جسویٹ مشنریوں نے  اکبرِ  اعظم کو پہنچائے تھے۔

ڈاکٹر  ہملٹن نے جو مشنری بھی تھے شاہِ فرخ سیر کی ہندو راجپوت منگیتر کا علاج کیا جس کے بدلے میں کلکتہ کے اردگرد  کا رقبہ جو تقریباً  10 مْربع میل تھا۔   ا  نگریزوں کو اس علاج کے صلہ میں دے دیا گیا۔   اور پھر 1690ء  میں کمپنی نے کلکتہ شہر بھی آباد کیا۔ اسے بنایا بھی کمپنی ہی نے تھا۔   اگرچہ کمپنی کے مسیحی   تاجروں  کا اثر محدود تھا لیکن جاری ضرور تھا۔

برٹش ایسٹ  انڈیا کمپنی کے  عزت مآب پادری  صاحبان کی خدمات کےبارے میں مْختصراً :

-1- پادری  جان ہاول:  1607ء سے لے کر اپنی وفات تک  خدمت جاری رکھی۔

-2- پادری ایڈورڈ یٹری :  جب پادری جان  ہاول فوت ہو گئے تو اْنکی جگہ پادری ایڈورڈ یٹری نئے چپلین ہو کر آئے۔   جنہوں نے حقیقت میں  خْداوند یسوع کے ارشادِ اعظم کی تکمیل میں انتہائی قیمتی خدمات سر انجام دیں۔   

-3-  پادری ولیم بسکے:    پادری ایڈورڈ یٹری کے بعدجب پادری ولیم بسکے تشریف لائے تو انکی خدمت نے تو انجیل ِمقدس کی ہر طرف ہی قدروقیمت بڑھائی ۔  ہر جگہ اور ہر طرف   لوگ انجیل ِمقدس ہی کے موضوع پر باتیں کرنے لگ گئے۔   پادری ولیم کو لوگ انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ اْدھر شہزادہ خْرم بھی کمپنی کے بہت قریب آنے لگا۔

-4-  پادری پیٹر راجز:    جب یہ کمپنی کے چپلین   ہوکر  آئے تو انہوں نے انتہائی سختی سے کمپنی کو  اتوار کے دن عبادت میں شرکت کرنے کی ہدائت کی اور جو اتوار کو عبادت کے لئے نہ آتے  ان کے ساتھ وہ نہایت سختی سے پیش آتے۔

-5-  پادری کیپ  لینڈ:   یہ ایک سیاح خادم تھے۔  یہ کمپنی اور ڈچ لوگوں کے درمیان صلح کرانے کی    کوشش میں لگارہا۔ لیکن کامیاب نہ ہوا۔  پھر بھی وہ 1612ء سے 1619ء  تک کمپنی کے انتہائی کامیاب  خْدا کے خادم کے طور پر اْ بھرا۔   اسی خْدا کے خادم کی وجہ سے ایک شخص مسیحی ہوا اور اسکا انگلستان میں 2 دسمبر 1616ء میں بپتسمہ ہوا۔   اور اس  نئے مسیحی کا نام انگلستان کے بادشاہ جیمز اؤل  نے پطرس رکھا۔    (پادری خورشید عالم ،  تاریخِ  بشارت الہند و پاکستان، صفحہ 42)

بمبئی کی نسبت مدراس میں زیادہ مسیحت کی اشاعت ہوئی۔  بمبئی میں 1718 ء میں نہایت ہی خوبصورت  چرچ تعمیر کیا گیا۔   جہاں پر دیسی لوگ اور انگریز دونوں ہی عبادت کرتے تھے۔

-6-پادری تھامس  فرائیڈ:   اس ہستی نے بارہ سال تک ہند میں جی جان سے خداوند کی خدمت کی۔

-7-   پادری جے ایلون :   پادری صاحب اور انکی اہلیہ نے مل کر کلکتہ میں مْنادی شروع کی   خْداوند  کےفضل سےپھر کلکتہ کو بھی سورت،  بمبئی اور مدراس جیسی اہمیت حاصل ہوگئی۔ 

اْدھر سسٹر شمیم، میتھاس،و نسنٹ اور رچرڈ موہن نے بادشاہِ انگلستان  چارلس دوئم سے قانون پاس کروایا کہ جو بھی مسیحی کمپنی کا مْلازم اتوار  کو چرچ نہ آئے اسے جْرمانہ کیا جائے اور  اگر کمپنی  کا مسیحی مْلازم صبح و شام کی عبادات میں شرکت نہ کریں اْنہیں بھی جْرمانہ ہو گا۔   اور جو جْرمانہ نہ دے سکے اسے اس کے گھر  میں سات دن تک محصور کردیا جائے۔   اور اگر کمپنی کی حدود میں جھگڑے اور  غیر اخلاقی باتیں ہونگی تو اس جْرم کے مْرتکب کو سینٹ جارج قلعہ  (مدراس  میں  کمپنی کا کارخانہ    جسےقلعہ بند کیا گیا  اور  پھر اسی قلعہ کی وجہ سے مدراس   شہر قائم ہوا تھا) کی حوالات میں بند کر دیا جائے گا۔    

سسٹر شمیم، میتھاس،و نسنٹ اور رچرڈ موہن نے بادشاہِ انگلستان  چارلس دوئم سے یہ بھی شکائت کی کہ ڈچ کمپنی میں 31 پریسٹ بطورِ چپلینز  ہیں اور جبکہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی میں صرف چند ایک ہی  ہیں۔  لہٰذا کمپنی میں اچھی خاصی تعداد  چپلینز   کی ہو نی چاہیے۔  دراصل  انگلستان  میں اِن ہی ایام میں  روحانی بیداری  آئی اور 18 صدی میں ہر کوئی انگلستان کی جانب دیکھ رہا تھا۔    اسی دور میں لارڈ رابرٹ کلائیو نے انگریزی اقتدار کو ہند میں شاندار فتوحات سے ہمکنار کیا  اور ساتھ ہی ساتھ مضبوط بھی کیا۔  1787ء میں جنگِ پلاسی میں انگریز جیتے  اور جسکی وجہ سے انکا بنگال پر قبضہ ہو گیا۔    1761ء  انگریزوں کو پانڈی چری میں فتح ملی جس سے مدراس انگریز ی حکومت کے تحت آ گیا۔    پھر نپولین بوناپارٹ (فرانس کا ملٹری  کمانڈر اور سیاسی لیڈر) بھی  جنگ ہار گیا۔     یوں انگلستان میں دٌنیاوی خْوشیاں تو لوٹ آئیں مگر  روحانی کمزوریاں زیادہ ہو گئیں۔   کیونکہ وہ سلطنتِ  مْغلیہ  کی زوال پذیری کی لہر سے خوب سیاسی طور پر فائدہ  حاصل کرنا چاہتی تھی ۔لیکن  کمپنی   اشاعتِ انجیل کے ضمن میں صفر کے برابر ہو گئی۔     

کمپنی کے افسران نے تو نہیں مگر خْدا کے خادمین   یعنی پادری صاحبان نے ضرور  انگلیکن کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔

 اپنے اگلے آنے والے بلاگ میں خْداوند کے فضل سے ہم اْس ہستی کے بارے میں مْختصراً پڑھیں اور جانیں گے کہ وہ کون ہے  جس کو ہند میں چرچ آف انگلینڈ کا بانی تسلیم کیا گیا۔   ہم اْسکی تصویر بھی  دیکھیں گے۔   مَیں نہ چیز اْس عظیم ترین خْدا کے خادم کا سب سے آخر میں ہرگز ذکر کرنا نہیں  چاہتا جس نے خْدواند یسوع مسیح  جیسی  ہستی کو حقیقی معنوں میں برِصغیر میں  مْتعارف کروایا     اور ہمارے  ابدی نجات کے راستے کو ہموار کیا تھا۔(آمین)
  آخر میں نیچے دی گئیں تصاویر کو بھی ضرور دیکھ لیں۔ پہلی تصویر  لارڈ رابرٹ کلائیو کی ہے جبکہ دوسری تصویر نپولین بونا پارٹ کی ہے۔













































Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ICC World Cup Points Table 2023 and Australia Wins the Final

The search for Aliens "The world's thinking will be updated very soon?"

SON of GOD official Trailer