خلائی مخلوق کی تلاش "بہت جلد دنیا کی سوچ بدل جائے گی؟"
کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش میں واضح طور پر کامیابی" بس کچھ ہی دیر" کی بات رہ گئی ہے
ماہرین فلکیات کی اکژیت اب یہ نہیں پوچھتے کہ کیا کائنات میں کہیں اور
بھی زندگی موجود ہے بلکہ اب ان کے ذہنوں میں سوال یہ ہے کہ ہم اسے کب تلاش کر
پائیں گے؟
اکثر ماہرین کو امید ہے
کہ ہماری زندگیوں میں ہی، شاید اگلے چند برسوں میں ہم کائنات میں کہیں زندگی کے
آثار کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ایک سائنسدان جو مشتری
پر آئندہ کچھ عرصے میں جانے والے ایک مشن کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ سیارے کے جہاں کئی برفیلے چاند ہیں ان میں سے کسی پر اگر زندگی نہ ہوئی تو یہ ان کے لیے حیرت
کی بات ہو گی۔
ناسا کی جیمز ویب سپیس
ٹیلی سکوپ (جے ڈبلیو ایس ٹی) نے حال ہی میں ہمارے نظام شمسی سے باہر ایک سیارے پر
زندگی کے غیر
معمولی آثار دریافت کیے ہیں اورابھی کائنات پر نظر ہے جہاں ممکنہ طور پر زندگی موجود ہو
سکتی ہے۔
ایسے کئی مشنز جو یا تو
اس وقت جاری ہیں یا شروع ہونے والے ہیں اور اَب ہمارے پاس اس سوال کا جواب دینے کی
ٹیکنالوجی اور صلاحیت موجود ہے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں؟‘
’گولڈی لاکس زون‘
ٹیلی سکوپس کے ذریعے ہماری
دنیا سے بہت دور موجود ہیں اور ان ٹیلی سکوپس کو ایسے کیمیکلز کی تلاش ہوتی ہے جو
زمین پر کم از کم صرف جاندار ہی پیدا کر سکتے ہیں۔
اس طرح کی ایک دریافت ستمبر 2023 کے شروع میں سامنے آئی تھی۔ زمین سے 120 نوری سال
کے فاصلے پر موجود ایک سیارہ جس کا نام کےٹو-18بی ہے پر ایک ایسی گیس کی موجودگی
کا پتہ چلا تھا جو عام طور پر زمین پر سمندر میں موجود جاندار پیدا کرتے ہیں۔
یہ سیارہ اس زون میں آتا ہے جسے ماہرین فلکیات ’گولڈی لاکس زون‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جو کہ اپنے ستارے سے ایک مناسب فاصلے پر موجود ہےجہاں مائع پانی کی موجودگی یقینی بناتا ہے جو زندگی کی موجودگی کے لیے ضروری ہے۔،ا
اس سیارے پر کام کرنے
والی ٹیم کو ایک سال کے عرصے میں یہ معلوم ہونے کی توقع ہے کہ آیا بظاہر غیرمعمولی
شواہد اصل میں مصدقہ ہیں یا اب موجود نہیں اور صرف کچھ دیر کے لیے ہی تھے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے
انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرونومی کے پروفیسر نکّو مدھوسودھن اس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں۔
اْنکا کہنا ہےاگر ہمیں اپنی تحقیق میں
پہلے ہی سیارے پر زندگی کے آثار ملتے ہیں تو اس سے کائنات میں (زمین کے علاوہ بھی)
زندگی کی موجودگی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
اگر ان کی ٹیم کو سیارے
کےٹو-18بی پر زندگی کے آثار نہیں ملتے تو ان کی ٹیم کے پاس مزید تحقیق کے لیے
گولڈی لاس زون میں موجود مزید 10 سیارے ہیں اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی بہت سے
ایسے سیارے ہوں گے۔
پروفیسر مدھوسودھن پیش
گوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پانچ سالوں میں کائنات میں زندگی کے بارے میں ہماری
سوچ میں ایک بڑی تبدیلی آ جائے گی۔
ان کی یہ تحقیق ایسے کئی پراجیکٹس میں سے ایک ہے جو کائنات میں زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لیے یا تو ان میں سے کچھ ہمارے نظامِ شمسی میں موجود دیگر سیاروں پر تحقیق کر رہے ہیں، جبکہ باقی ’ڈیپ سپیس‘ یعنی خلا میں دور دراز سیاروں پر نظریں رکھی ہوئی ہے۔ ،تصویر کا ذریعہNASA
ناسا کی جمیز ویب
ٹیلی سکوپ طاقتور ہونے کے باوجود کچھ معاملات میں محدود بھی ہے۔ زمین کے حجم اور
سورج سے اس کا فاصلہ یہاں زندگی کی موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔ تاہم جیمز ویب ٹیلی
سکوپ زمین سے غیر معمولی فاصلے پر موجود زمین کے حجم جتنے یا (کےٹو-18بی زمین سے
آٹھ گنا بڑا ہے) یا اگر ستاروں کے گرد یہ سیارے گردش کر رہے ہیں ان کا ان ستاروں
سے اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین کا سورج سے ہے تو یہ ٹیلی سکوپ ان ستاروں کی چمک کے
باعث اسے نہیں دیکھ پائے گی۔
لہذا ناسا کا منصوبہ ہے
کہ ہیبیٹیبل ورلڈ آبزرویٹری (ایچ ڈبلیو او) (Habitable World Observatory)سنہ 2030 کی دہائی میں کام کرنے لگے
گی۔ یہ ایک انتہائی مؤثر اور جدید ’سن شیلڈ‘ ہو گی جو اس ستارے کی روشنی کو بہت کم
کر دے گا جس کے گرد سیارہ گردش کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمین جیسے
سیاروں کے ماحول کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے نمونے بھی حاصل کر سکے گا۔
اس دہائی کے آخر میں
انتہائی بڑی ٹیلی سکوپ (ای ایل ٹی) بھی فعال ہونے والی ہے جو کہ چلی کے صحرا سے
صاف شفاف ماحول میں خلا کا جائزہ لے رہی ہو گی۔
اس میں نصب آئینے کا
قطر 39 میٹر ہے جو کسی بھی آلے میں موجود اب تک کا سب سے بڑا آئینہ ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ یہ گذشتہ تمام ٹیلی سکوپس کے مقابلے سیاروں کے ماحول کا بہت تفصیل سے مطالعہ
کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔
ماحول کا تجزیہ کرنے
والی ان تینوں ٹیلی سکوپس میں ایک تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جسے کیمیا دان
گذشتہ سینکڑوں سالوں سے استعمال کرتے آئے ہیں تاکہ مواد میں موجود کیمیکلز کی ان
سے نکلنےس والی روشنی کے ذریعے نشاندہی کی جا سکے۔
تاہم یہ ٹیلی سکوپس اتنی زیادہ طاقتور ہیں کہ وہ سیکڑوں نوری سال کے فاصلے پر ستارے کے گرد چکر لگانے والے سیارے کے ماحول سے روشنی کی چھوٹی سی کرن کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔
جہاں بہت سے ماہر
فلکیات زندگی کی موجودگی کے لیے دور دراز کے سیاروں کے علاوہ ہمارےاپنے نظام شمسی کے سیاروں میں زندگی کے سب
سے زیادہ امکانات مشتری کے چاند یوروپا پر ہیں، جو کہ اس کے متعدد برفیلے چاند میں
سے ایک ہے۔یوروپا کی برفیلی سطح کے نیچے ایک سمندر ہے، جہاں سے پانی کے بخارات نکل
کر خلا میں شامل ہوتے ہیں۔
یورپی مشن کی سرکردہ
سائنسدان پروفیسر مشیل ڈوہرٹی سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں زندگی کی تلاش کا
کوئی امکان بھی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’یہ حیرت کی بات ہو گی کہ اگر مشتری کے
برفیلے چاندوں میں سے ایک پر زندگی نہ ہو گی۔‘
ناسا زحل کے گرد پائے جانے والے چاند میں سے ایک ٹائٹن پر اترنے کے لیے ’ڈریگن فلائی‘ نامی خلائی جہاز بھی بھیج رہا ہے۔،کا ذریعہ
مریخ اس وقت تو جانداروں کے لیے بہت زیادہ غیر موزوں مانا جاتا ہے لیکن ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ سیارہ کبھی ہماری زمین سے بھی زیادہ سرسبز تھا اور وہاں گھنے جنگلات اور سمندر تھے اور یہ زندگی کی موجودگی کے لیے مْناسب ترین ماحول تھا۔
کیا خلائی مخلوق ہم تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے؟
ڈاکٹر کیبرول کا کہنا
ہے کہ دور دراز کے ماحول سے کیمیائی سگنیچرز (Chemical Signatures)کا ملنا، چاند کے قریب سے کچھ مخصوص
اشیا کے گزرنے کے باعث سامنے آنے والی دلچسپ ریڈنگز اور مریخ کے مائیکرو فوسلز بھی
اس بارے میں سوالات کو جنم دیتے ہیں۔کسی سگنل کی تلاش زندگی کے آثار تلاش کرنے کے
لیے تمام مختلف طریقوں میں سب سے زیادہ مشکل معلوم ہو سکتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’تصور
کریں کہ ہمارے پاس ایک ایسا سگنل آتا ہے جسے ہم حقیقت میں سمجھ سکتے ہیں۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ
’تیس سال پہلے ہمارے پاس سیاروں کے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے کا کوئی ثبوت
نہیں تھا۔ اب 5000 سے زیادہ ایسے سیارے دریافت ہو چکے ہیں جن کا علم فلکیات اور
فلکیات کے ماہرین بے مثال تفصیل سے مطالعہ کر سکتے ہیں اور اکثر کا کر چکے ہیں۔
کارڈف یونیورسٹی کے ڈاکٹر سوبھوجیت کےٹو-18 بی کا مطالعہ کرنے والی ٹیم کے رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تمام چیزیں ایک ایسی ممکنہ دریافت کے لیے ہمارے
سامنے ہیں جو ایک ناقابل یقین
سائنسی پیش رفت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
Comments
Post a Comment