قادرِمتعلق خْدا سے حقیقی مْلاقات کی ایک جھلک


قادرِمتعلق  خْدا سے حقیقی مْلاقات کی ایک جھلک!

موت کے منھ سے واپسی: ’مجھے لگا فرشتے میرے زخموں پر مرہم رکھ رہے ہیں‘

 (26-Oct-2023)With Thanks by BBC،

’میں ایک بلڈر کے طور پر ناکام ہو چکا تھا۔ میرے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے اور مجھے اپنے فلیٹ سے نکالا جانے لگا تھا۔‘

ڈیوڈ ڈچفیلڈ(David Dutch field) اس وقت 46 برس کے تھے اور شراب کے عادی تھے۔ یہ سنہ 2006 کی بات ہے اور لندن میں ان کی زندگی غیر یقنی صورتحال کا شکار تھی۔

اس مایوس کن صورتحال میں ڈیوڈ اپنی بہن کے پاس کیمبرج شائر نامی قصبے میں کچھ وقت گزارنے کے لیے چلے گئے۔ یہاں ان کی ایک دوست ان سے ملنے آئیں اور وہ انھیں واپسی پر چھوڑنے کے لیے ریلوے سٹیشن تک گئے۔

آگے جو ہوا اس کے باعث ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔ جاتے وقت ان کا کوٹ ٹرین کے دروازے میں پھنس گیا اور پھر ٹرین کے دروازے بند ہو گئے۔

جیسے ہی ٹرین چلنا شروع ہوئی، ڈیوڈ پلیٹ فارم پر گھسیٹتے ہوئے پٹریوں پر آ گرے اور شدید زخمی ہو گئے اور اس دوران ان کا ایک بازو بری طرح زخمی ہو گیا۔

پٹڑی پر لیٹے ہوئے انھیں ایک غیر معمولی اور انوکھا روحانی تجربہ ہوا۔ اس کے بعد انھیں زخمی حالت میں قریبی ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی سرجری کی گئی۔

اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیوڈ نے بتایا کہ ’وہ ایسا لمحہ تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میں اپنے جسم کو چھوڑ چکا ہوا۔ میں ہسپتال کی ہلچل سے دور تھا۔ میرے جسم کو جو خوفناک درد محسوس ہو رہا تھا وہ ختم ہو چکا تھا اور میں بالکل پرسکون ہو چکا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سفید روشنی کی تین لکیریں اپنے اردگرد یکساں طور پر پھیلی ہوئی پائیں جو میری جانب آ رہی تھیں۔ لکیریں بہت روشن اور شدید تھیں لیکن انتہائی پاکیزہ بھی۔‘

’یعنی میں ان لکیروں کو دیکھ سکتا تھا اور مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میرے اردگرد پھیلی ہوئی روشنی میرے جسم سے گزر رہی تھی اور مجھے شفا دے رہی تھی۔‘

ڈیوڈ کا دعویٰ ہے کہ انھیں اپنے اردگرد فرشتوں کی موجودگی کا احساس بھی ہوا۔ ’مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ میرے زخموں پر مرہم رکھ رہے تھے اور میری زندگی میں موجود درد کی تہوں کو سمیٹ رہے ہیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میرے باطن تک پہنچ گئے ہیں۔‘

’زندگی میں پہلی بار مجھے اپنا آپ مکمل محسوس ہونے لگا اور اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں اپنی زندگی کے دوران کیا کرتا رہا ہوں۔‘


صویر کا ذریعہDAVID اس دوران آخری مرحلے پر ڈیوڈ کو جو احساس ہوا وہ سب سے گہرا تھا۔ وہ اسے اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے وہ کہکشاؤں اور سیاروں کے درمیان موجود ہوں اور روشنی کی سفید سرنگیں تاحدِ نگاہ پھیلی ہوئی ہوں اور یہ سب دیکھ رہے ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سفید روشنی کی اس سرنگ سے آنے والی توانائی کے ساتھ اپنے جسم کا ہر حصہ ہلتا ہوا محسوس کیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں تخلیق کے ذریعے کو دیکھ رہا ہوں۔‘

’یہ یقیناً خدا تھا جسے میں روشنی کی اس عظیم سرنگ میں سفید روشنی کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ یہ احساس مجھ پر مکمل طور پر غالب آ چکا تھا۔‘

ڈیوڈ کو محسوس ہونے والا یہ روحانی تجربہ وقتی بھی تھا اور برقرار رہنے والا بھی۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اب بھی مکمل اطمینان محسوس کرتے ہیں، مقصد سے بھرپور زندگی گزار رہے ہیں اور کائنات کی توانائی کے ساتھ خود کو ہم آہنگ محسوس کر رہے ہیں۔

اب جبکہ وہ صحتیاب ہو چکے ہیں اور ان کا بازو پوری صلاحیت سے کام کر رہا ہے تو انھیں موت سے ڈر نہیں لگتا۔

ڈیوڈ کو اس سے پہلے کبھی موسیقی سے زیادہ لگاؤ نہیں تھا لیکن بغیر کسی تجربے کے انھوں نے کلاسیکی موسیقی کی دھنیں کمپوز کیں اور ایسی پینٹنگز بنا چکے ہیں جو ان کے صحتیابی کے دوران جذبات کی عکاس ہیں۔

ان کی دھنوں کو مقامی طور پر بجایا گیا ہے اور ان کی تصاویر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے میوزیم آف دی بائبل میں آویزاں کی گئی ہیں۔

ڈیوڈ کے مطابق ان کے تجربات مذہبی سے زیادہ روحانی نوعیت کے تھے۔

  

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ICC World Cup Points Table 2023 and Australia Wins the Final

The search for Aliens "The world's thinking will be updated very soon?"

SON of GOD official Trailer